بڑی مدت ہوئی یورپ کے ملک سپین میں ایک لال چڑیا،سنہری چڑیا اور پھر پھر چڑیا رہتی تھیں۔ایک دن اُرتے اُرتے لال چڑیا نے گھوم کر سنہری چڑیا کی طرف دیکھا،جو برگدے کے درخت کی چھوٹی سی ،جھکی ہوئی ٹہنی پر بیٹھ گئی تھی۔
بڑی مدت ہوئی یورپ کے ملک سپین میں ایک لال چڑیا،سنہری چڑیا اور پھر پھر چڑیا رہتی تھیں۔ایک دن اُرتے اُرتے لال چڑیا نے گھوم کر سنہری چڑیا کی طرف دیکھا،جو برگدے کے درخت کی چھوٹی سی ،جھکی ہوئی ٹہنی پر بیٹھ گئی تھی۔وہ پلٹی اور سنہری چڑیا کے قریب بیٹھتے ہوئے بولی:”کیوں ری ،تھک گئی کیا؟“
چڑیا نے زور سے گردن ہلائی اور قدرے تیز آواز میں بولی:”ہاں،میں تھک گئی ہوں۔
لال چڑیا پریشان ہو کر کہنے لگی:”دیکھو!پھر پھر چڑیا کا گھر اب تھوڑی ہی دور رہ گیا ہے۔ہمت کرو،ہمیں اندھیرا ہونے سے پہلے،واپس لوٹنا ہے۔“
اس کی بات سن کر سنہری چڑیا یک دم اُڑی اور لال چڑیا کے سامنے دو تین پھیرے لینے کے بعد واپس ٹہنی پر جا بیٹھی۔لال چڑیا نے محسوس کیا،اس کی دوست سخت غصے میں ہے۔
اس نے نرم آواز میں کہا:
”اچھی دوست!وہ بے چاری ہمارا انتظار کررہی ہوگی۔
اٹھو،اب چلتے ہیں۔“
”میں اس کے گھر نہیں جاؤں گی۔وہ مجھے اچھی نہیں لگتی۔“
سنہری چڑیا واقعی سخت غصے میں تھی۔لال چڑیا مدہم آواز میں بولی:
”اگر ایسی بات تھی تو پہلے․․․․․“
سنہری چڑیا نے اس کی بات درمیان سے اچکتے ہوئے کہا:”وہ تو میں تمہاری خاطر چلی آئی تھی۔“ ”شکریہ!اب میری خاطر ہی اس کے گھر چلو سچ کہتی ہوں،وہ بہت اچھی دوست ہے اور پیاری!اچھے دوست قدرت کا انمول تحفہ ہوتے ہیں،اس کی قدر کرنی چاہیے،کیونکہ اچھے دوست بار بار نہیں ملا کرتے۔
“لال چڑیا نے کہا۔
”تمہاری بات ٹھیک ہے ،لیکن میں اس کے گھر نہیں جاؤں گی۔“سنہری چڑیا نے اٹل لہجے میں کہا۔
”یہ بات ہے تو تم واپس چلی جاؤ۔میں اس سے کیا ہوا وعدہ ضرور پورا کروں گی۔“اتنا کہتے ہی لال چڑیا پھر سے اُڑی اور تیزی سے اپنی دوست پھر پھر کے گھر کی طرف اڑنے لگی۔جب وہ اس کے گھر پہنچتی تو دیکھا،وہ بے چاری بخار میں بُری طرح پھنک رہی تھی۔
اس کے ننھے منے بچے اس کے آس پاس گھبرائے،پریشان اور سہمے ہوئے بیٹھے تھے۔لال چڑیا کو دیکھتے ہی وہ شور مچانے لگے۔پھر پھر نے بھی نظریں اٹھا کر اپنی دوست کو دیکھا اور نحیف سی آواز میں بولی:”لال!تم آگئیں۔“
”کیا ہوا پھر پھر؟“لال چڑیا اپنی دوست کی یہ حالت دیکھ کر تڑپ اٹھی۔پھر پھر کے بڑے بچے نے روتے ہوئے کہا:
”آنٹی !امی کو کل سے بخار ہے اور ․․․․․اور ہم نے کل سے کچھ نہیں کھایا۔
آنٹی بھوک لگ رہی ہے۔“چھوٹے بچے نے مچل کر کہا۔
لال چڑیا نے بڑھ کر اس کا منہ چوم لیا۔پھر بولی:”اب میں آگئی ہوں۔آپ کے لیے کھانے کا بندوبست کروں گی۔“
پھر پھر نے محبت بھری نظروں سے اپنی پیاری اور مخلص دوست کی طرف دیکھا اور پھر اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔یہ دیکھ کر لال چڑیا بولی:”دوست!میں بچوں کے لیے دانا دنکا لاتی ہوں۔
“اتنا کہہ لال چڑیا نے پھر پھر کا گھونسلہ چھوڑ دیا۔
سنہری چڑیا نے اپنے اردگرد موجود،بہت سی رنگ برنگی چڑیوں کو مخاطب کیا:”وہ ہے تو میری دوست، لیکن بہت ضدی ہے ۔میں تو راستے سے پلٹ آئی اور وہ ہو نہ ہو یقینا کسی مشکل میں ہو گی۔“
”ضدی لوگوں کا انجام ہمیشہ بُرا ہوتاہے۔“ایک گول مٹول،چھوٹی سی چڑیا نے کہا۔
”تمہاری بات درست ہو سکتی ہے مگر میرے خیال میں ضد اگر کسی نیک اوراچھے کام کے لیے ہو تو نہایت عمدہ بات ہے۔
میں لال چڑیا کو بچپن سے جانتی ہوں۔وہ بلاوجہ ضد نہیں کرتی۔“نیلی چڑیا نے کہا۔یہ خوبصورت چڑیا،سنہری چڑیا کے برابر میں بیٹھی تھی۔سنہری چڑیا نے گردن گھما کر اسے دیکھا اور پھر بُرا سامنہ بنا کر بولی:”ہو نہہ !تمہیں تو لال چڑیا کی کوئی بات بھی بری نہیں لگتی۔نہ جانے اس نے تمہیں کیا کھلادیا ہے۔“
نیلی چڑیا نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور آہستہ سے کہنے لگی:
”تمہیں تو اس بے چاری سے خدا واسطے کا بیر ہے․․․․․ورنہ یہ حقیقت ہے کہ وہ پورے جنگل میں سب سے پیاری اور عقل مندہے۔
“
یہ بات سن کر سنہری چڑیا کو تاؤ آگیا،مچلتی ہوئی بولی:”اگر اس کی حمایت ہی کرنی ہے تو یہاں سے چلتی پھرتی نظر آؤ․․․․․․ہو نہہ!بڑی آئی․․․․․․․“
”سچی بات ہمیشہ کڑوی لگتی ہے۔“نیلی چڑیا نے مسکرا کر کہا۔
سنہری چڑیا نے کوئی جواب نہ دیا۔عین اسی وقت دور سے لال چڑیا آتی دکھائی دی۔نیلی چڑیا کے چہرے پر موجود مسکراہٹ گہری ہو گئی،وہ بولی:
”لو،بہنو!لال آرہی ہے۔
ابھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔‘ُ‘
لال چڑیا،نیلی چڑیا کے قریب آکر بیٹھی تو سنہری چڑیا نے منہ بنا کر اس کی طرف سے پھیر لیا۔لال چڑیا یہ دیکھ کر مسکرادی۔پھر نیلی چڑیا بولی:
”لال بہن!سچ سچ بتاؤ،تم اس وقت کہاں سے آرہی ہو؟“
”بات کیا ہے․․․․․․تم سب کیوں جمع ہو؟“لال چڑیا نے حیرت سے کہا۔
”لال بہن!دراصل سنہری چڑیا نے ہمیں آکر بتایا،تم کہیں دور نکل گئی تھیں۔
سنہری چڑیا نے تمہیں بہت سمجھایا کہ شام کے بعد،چڑیوں کا اپنے گھروں سے دور رہنا ٹھیک نہیں․․․․․․․بے شمار دشمن ہماری تاک میں رہتے ہیں۔لیکن تم نے اس کی ایک نہ مانی اور ضد کرکے مقررہ حدود سے نکل گئیں۔“مٹیالی چڑیا نے ایک ہی سانس میں کہا۔اس کی باتیں سن کر لال چڑیا نے سنہری چڑیاکو دیکھا اور بولی:”میں حیران ہوں،سنہری چڑیا نے یہ بات کی۔
وہ اصل میں،میں نے اپنی دوست پھر پھر سے وعدہ کیا تھا،میں آج کے دن اس سے ملنے جاؤں گی،چنانچہ اب وہیں سے آرہی ہوں۔وہاں تھوڑی دیر ہو گئی،وہ بیمار تھی،اس کے بچوں کے لیے دانا دنکا پہنچا کر آرہی ہوں،معذرت خواہ ہوں۔“
اس کی بات ختم ہوتے ہی سنہری چڑیا پھر سے اڑی اور یہ جاوہ جا۔”سنہری چڑیا بھاگ گئی۔اس کامطلب ہے،اس نے ہمیں ورغلانے کی کوشش کی۔“ایک چڑیا نے کہا۔
لال چڑیا بولی:”دوستو!سنہری چڑیا کی باتیں جان کر مجھے بے حد دکھ ہوا ہے۔“
ایک ننھی سی چڑیا اڑکر،قریبی درخت کی جھکی ہوئی شاخ پر بیٹھتے ہوئے بولی:
”دوست اچھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی․․․․․․․اللہ ہمیں بُرے دوستوں سے بچائے۔“
تمام چڑیاں ایک ساتھ بولیں:”آمین!“